Story of prisoners of Sednaya prison in Syria Urdu
بدنام زمانہ ملک شام کی صیدیانہ جیل اس میں ایسے ایسے لوگ قیدی تھے کہ جنہوں نے بیس بیس پچیس سال سے سورج تک نہیں دیکھا باہر کی آب و ہوا تک کو نہیں محسوس کیا۔
Table of Contents
ملک شام کی صیدیانہ جیل کے قیدیوں کی داستان
صیدیانہ جیل، جو شام کے شہر دمشق کے نزدیک واقع ہے، دنیا کی سب سے سخت اور بدنام جیلوں میں سے ایک مانی جاتی ہے۔ اس جیل میں قیدیوں کو انتہائی سخت حالات میں رکھا جاتا تھا، جہاں کئی قیدیوں نے دہائیوں تک سورج کی روشنی نہیں دیکھی اور باہر کی آب و ہوا کو بھی محسوس نہیں کیا۔
۔حالیہ ترقیات کے مطابق، اس جیل سے قیدیوں کی رہائی کا عمل جاری ہے۔ مزاحمتی گروہوں نے جیل کا کنٹرول حاصل کرلیا ہے اور اب قیدیوں کو آزاد کرنے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ان کوششوں میں خفیہ زیر زمین سیلوں کی تلاش شامل ہے، جہاں ممکنہ طور پر مزید قیدی موجود ہو سکتے ہیں۔ اس آپریشن کے مکمل ہونے کے بعد، تمام قیدیوں کو بخیر و عافیت باہر کی دنیا میں قدم رکھنے کا موقع ملے گا، جہاں وہ ایک نئی زندگی کا آغاز کر سکیں گےصیدیانہ جیل کی تاریخ ایک لمبی اور تاریک کہانی ہے
قیام
صیدیانہ جیل کو 1987 میں بنایا گیا تھا، جس کا مقصد سیاسی قیدیوں، باغیوں اور ان لوگوں کو قید کرنا تھا جو شامی حکومت کے خلاف بولتے یا کام کرتے تھے۔سختی کا دور: یہ جیل بشار الاسد کے دور میں انتہائی سخت حالات کے لیے مشہور ہوئی، جب شام میں خانہ جنگی شروع ہوئی۔ اس دوران، اس جیل میں شدید تشدد، تعذیب، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بے شمار رپورٹس سامنے آئیں۔
قیدیوں کی تعداد
اس جیل میں ہزاروں قیدی رہے ہیں، جن میں سے بہت سے کو بغیر مقدمہ چلائے یا بغیر کسی قانونی ضابطے کے قید کیا گیا۔ کئی قیدیوں کو طویل عرصے تک بغیر کسی رابطے کے رکھا گیا، جس سے ان کے اہل خانہ بھی ان کے بارے میں کچھ نہیں جان پاتے تھے۔انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں: انسانی حقوق کی تنظیموں نے صیدیانہ جیل میں ہونے والی تعذیب، موت کی سزا، اور بدترین حالات کے بارے میں رپورٹس جاری کیں۔ بہت سے قیدیوں کی موت کی خبریں بھی ملیں، جن کی وجوہات میں تعذیب، بھوک، بیماری اور بدترین حالات شامل تھے۔
حالات کی بہتری
جنگ کے دوران اور بعد میں، بعض علاقوں میں کنٹرول تبدیل ہونے کے ساتھ، صیدیانہ جیل کے حالات میں کچھ بہتری آئی ہے۔ مزاحمتی گروہوں نے جیل کا کنٹرول حاصل کیا اور اب وہ قیدیوں کی رہائی کے لیے کام کر رہے ہیں۔
مستقبل
جیل کا مستقبل ابھی تک غیر یقینی ہے، لیکن امید کی جا رہی ہے کہ اس کے آزاد ہونے والے قیدیوں کے لیے ایک نئی زندگی کا آغاز ہو سکے گا۔یہ جیل شام کے انسانی حقوق کی صورتحال کا ایک تاریخی علامت بن چکی ہے، جس نے بہت سے قیدیوں اور ان کے خاندانوں کی زندگیوں پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔صیدیانہ جیل میں تعذیب کی رپورٹس بہت زیادہ ہیں اور ان کی تفصیلات انتہائی دلخراش ہیں۔ یہاں کچھ اہم نکات ہیں:
تعذیب کے طریقے
قیدیوں کو بجلی کے جھٹکے، شدید مار پیٹ، پانی کے بورڈنگ، تنہائی، اور جسمانی اور نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ کچھ رپورٹس میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ قیدیوں کو لوہے کی پھانسی کی پریس میں ڈال کر انھیں کچل دیا جاتا تھا۔
موت کی سزائیں
صیدیانہ جیل میں بہت سے قیدیوں کو سزائے موت دی گئی، جس میں پھانسی کے علاوہ دیگر طریقوں سے بھی قتل کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ پھانسی کے بعد قیدیوں کو ایک مشین میں ڈال کر ان کے جسم کو کچل دیا جاتا تھا تاکہ ان کے جسم کو چھوٹا کیا جا سکے۔
انسانی حقوق کی رپورٹس
اقوام متحدہ اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں نے صیدیانہ جیل کو “انسانی مذبح خانہ” قرار دیا ہے، جہاں 2011 سے 2018 کے درمیان تقریباً 30 ہزار قیدیوں کی موت ہوئی، جس میں تشدد، طبی امداد کی عدم دستیابی، اور بھوک شامل تھے۔
خفیہ کوٹھڑیاں
جیل کے زیر زمین حصے میں خفیہ کوٹھڑیاں تھیں جہاں قیدیوں کو رکھا جاتا تھا۔ ان کوٹھڑیوں کی تلاش کے لیے خصوصی ٹیمیں بھیجی گئی ہیں، جو ابھی تک جاری ہے۔یہ رپورٹس قیدیوں کی گواہیوں، انسانی حقوق کی تنظیموں کی تحقیقات، اور میڈیا کی کوریج پر مبنی ہیں۔ یہ ظلم و ستم کی رپورٹس نے صیدیانہ جیل کو عالمی شہرت یافتہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی جگہ بنا دیا ہے۔