![]()
A Warrior, Forced to Beg From his Own People Urdu
وہ فاتح اندلس تھا ۔ ایک عظیم جنگجو سالار لیکن تاریخ نے اسے دمشق کی مسجد کے سامنے بھیک مانگتے بھی دیکھاجسے دشمن جنگوں میں نہ ہرا سکے اسے اپنوں نے بھکاری بنادیا
ہمیں صرف یہ بتایا گیا ہے کہ طارق بن زیاد نے اندلس فتح کیا تھا یہ نہیں بتایا گیا کہ مسلم حکمرانوں نے اس کیساتھ کیا کیاطارق بن زیاد کی وہ کہانی جو آپ نے نہ پڑھی ہوگی اور نہ سنی ہوگی۹۲ھ میں یہاں عیسائی حکمراں راڈرک تخت نشیں تھا جس کو عربی تاریخوں میں لزریق کہتے ہیں یہ نہایت بے رحم اور عیاش تھا
اس کا ایک خاص شوق یہ تھا کہ وہ اپنی رعایا کے نوعمر لڑکوں اور لڑکیوں کو شاہی تربیت کے بہانے اپنے زیر اثر رکھتا تھا اور اپنی ہوس کا شکار بناتاتھا، چناں چہ اس کے ایک گورنر کونٹ جولین کی بیٹی فلورنڈا، بھی اس کے فعل قبیحہ سے نہ بچ سکی نتیجتاً نوعمر لڑکی نے اپنے باپ جولین کو اس حرکت سے باخبر کیا جس کی وجہ سے جولین کے دل میں راڈرک اور اس کی حکومت کے خلاف نفرت کی آگ بھڑک اٹھی،
یہ وہ زمانہ تھا کہ جب اہل اسلام موسیٰ بن نصیر کی قیادت میں شمالی افریقہ کے پیشتر حصوں کو اپنا وطن بناچکے تھے چناں چہ جولین ایک وفد لے کر موسیٰ بن نصیر کی چوکھٹ پر حاضر ہوا اور موسیٰ کو راڈرک کی تمام کرتوت سے آگاہ کیا اوردرخواست کی کہ وہ اسپین کو راڈرک جیسے سفاک، بدکردار، حاکم سے نجات دلائیں۔
جولین کی گزارش پر موسیٰ بن نصیر نے خلیفہ ولید بن عبدالملک سے اندلس پر حملے کی اجازت طلب کی خلیفہ نے احتیاط کی تاکید کے ساتھ منظوری دے دی، موسیٰ نے ابتداء میں چند چھوٹی چھوٹی مہمات طنجہ سے اندلس روانہ کیں تاکہ حالات کا صحیح اندازہ ہوجائے یہ مہمات بہتر ثابت ہوئیں تو موسیٰ نے طارق بن زیاد کی زیر کمان ایک بڑا لشکر اندلس پر حملہ کے لیے روانہ کیا
طارق کی فوج سات ہزار جاں باز مسلمانوں پرمشتمل تھی انہیں طنجہ سے اندلس پہنچانے کے لیے چار بڑی کشتیاں استعمال کی گئیں جوکئی دن تک مسلسل فوجی نقل وحرکت پر نظر لگائے تھیں، بالآخر پورا لشکر اندلس کے اس ساحل پر پہنچ گیا جو اب بھی جبل الطارق کے نام سے موسوم ہےاندلس کے ممتاز مؤرخ مقری نے’’نفح الطیب‘‘ میں فتح اندلس کا واقعہ نہایت تفصیل سے لکھا ہے
وہ لکھتے ہیں طارق جب کشتی پرسوار ہوئے تو کچھ دیر بعداس کی آنکھ لگ گئی توانھیں خواب میں نبی کریم ﷺ کی زیارت ہوئی انھوں نے دیکھا کہ آں حضرتﷺ خلفائے راشدین اور بعض دیگر صحابہ تلواروں اور تیروں سے مسلح سمندر پر چلتے ہوئے تشریف لارہے ہیں جب آپﷺ طارق بن زیادکے پاس سے گزرے تو آپﷺ نے فرمایا’’طارق بڑھتے چلے جائو‘‘ اس کے بعد طارق نے دیکھا کہ آں حضرت ﷺ اور آپﷺ کے مقدس رفقاء اس سے آگے نکل کر اندلس میں داخل ہوگئے، طارق کی آنکھ کھلی تو وہ بے حد مسرور تھے انہیں فتح اندلس کی خوش خبری مل چکی تھی انھوں نے اپنے ساتھیوں کو یہ بشارت سنائی اوراس مژدہ نے مجاہدین کے حوصلوں کو کہیں سے کہیں پہنچادیا،
علاوہ ازیں ایک دیگر واقعہ بھی تاریخ اندلس میں درج ہے کہ طارق اپنی جمعیت کے ہمراہ سرحد اندلس میں داخل ہوا اور لب ِ دریا جو شہر واقع تھے انھیں فتح کرتا ہوا آگے بڑھا اثنائے راہ میں ایک بڑھیا نے اس سے کہا کہ اس ملک کا توہی فاتح معلوم ہوتا ہے میرا شوہر بہت بڑا کاہن تھا وہ مجھ سے کہا کرتا کہ غیر قوم اندلس پر قابض ہوگی اس کے سپہ سالار کی پیشانی بلند اور اس کے بائیں شانے پر تل ہوگا اوراس تل کے گرد بال ہوں گے،
میں جہاں تک غور کرتی ہوں تیری ہی پیشانی بلند پاتی ہوں، اگر تیرے وہ تل بھی تیرے جسم پر ہے تو بیشک تو و ہی شخص ہے جس کے متعلق میرے شوہر نے پیشین گوئی کی ہے طارق نے اپنے بائیں شانے کا تل اس بڑھیا کو دکھایا۔ایک مشہور روایت ہے کہ جب جزیرہ نما اندلس کے کنارے پر طارق کا لشکر اترا تو اس نے اپنی کشتیاں جلادی تھیں تاکہ جیت یا موت کے سوا لشکر کے سامنے کوئی تیسرا راستہ نہ رہے اگر چہ یہ واقعہ نئی تاریخوں میں تو بہت عام ہے مگر فتح اندلس کی قدیم مستند تاریخیں اس کے ذکر سے خالی ہیں،
اندلس کے نامور مؤرخ مقری نے اندلس کی ضخیم تاریخ ’’نفح الطیب‘‘ لکھی ہے جس میں یہ واقہ موجود نہیں ہے، علاوہ ازیں ابن خلدون اور طبری وغیرہ نے بھی کشتیاں جلانے کاتذکرہ نہیں کیا اس واقعہ کو ڈاکٹر اقبال نے بھی اپنے جذبات کا لباس پہنایا ہے
طارق جوبرکنارہ اندلس سفینہ سوخت٭گفتند کار توبہ نگاہ خرد خطاست
دویم از سوادِ وطن، بازچوں رسم؟٭ترک سبب زروئے شریعت کجارواست؟
بہر کیف طارق بن زیاد اوراس کے اولوالعزم فوجیوں کی ہمت اور شجاعت کی نظیریں بھی کم ملتی ہیں، چناں چہ طارق بن زیاد اپنے لشکر کے ساتھ جبل الفتح یا جبل الطارق کے ساحل پر خیمہ زن ہوا اور وہ وہاں سے ’’الجزیرۃ الخضر‘‘ تک ساحلی پٹی کو کسی خاص مزاحمت کے بغیر فتح کرلیا،لیکن تبھی راڈراک نے اپنے مشہور جنرل تدمیرکو ایک بھاری لشکر دے کر طارق بن زیاد کے خلاف روانہ کردیا، مسلمانوں کے لشکرکے ساتھ پے درپے کئی لڑائیاں ہوئیں تدمیرکو ان میں شکست کامنھ دیکھنا پڑا حتی کہ اس کی فوج ایمانی جذبات سے سرشار سپاہ کے سامنے بالکل منتشر ہوگئی،
تدمیر نے اپنے حاکم راڈراک کو خبر دی کہ جس قوم سے میرا واسطہ پڑا ہے وہ خداجا نے آسمان سے ٹپکی ہے یا زمین سے ابلی ہے اب اس کامقابلہ اس کے سوا ممکن نہیں کہ آپ ازخود ایک بڑا لشکر جرار لے کر اس سے مقابلہ کریں، راڈراک نے اپنے سپہ سالار کا پیغام ملتے ہی سترہزار سپاہیوں پر مشتمل ایک عظیم الشان محاذ تیار کیا اور طارق کی جانب کوچ کیا۔ادھر موسیٰ بن نصیر نے بھی طارق بن زیادہ کی مدد کے لیے پانچ ہزار فوجیوں کی کمک روانہ کی جس کے پہنچنے کے بعد طارق بن زیاد کا لشکر بارہ ہزار پر مشتمل ہوگیا۔
حیرت انگیز بات ہے کہ کہاں ستر ہزار کاتربیت یافتہ جرار لشکر اور کہاں بارہ ہزار عربی سپاہی جو نہ صرف اس ملک کے لیے اجنبی تھے بلکہ اندلس کے جدید ہتھیاروں کے سامنے بھی بظاہر کچھ نہ تھے، مگر اسلامی فوج کے خون میں جو جذبات اور انقلابات برپا تھے ان کے سامنے چاہے آہنی دیوار یں ہوں یا سنگین پہاڑ سب بے وجود تھے، انھوں نے جس دین کا پرچم تھا ما تھا وہ نہ صرف دنیا میں تاریکی کو مٹانے کے لیے تھا بلکہ ایک ایسا روشن نظام حیات کا بھی ضامن تھا جس میں مادّی وروحانی دونوں کی فلاح کا رازمضمر ہے۔
چنانچہ وادی لکہ کے مقام پر دونوں لشکر روبرو ہوئے تو طارق نے اپنے لشکر قلیل کو جوخطبہ دیا تھا اب بھی عربی ادب وتاریخ میں امتیازی حیثیت کا حامل ہے اس کے الفاظ کیا ہیں دلوں کی تمازت وتموج ہیں جن سے اسلامی لشکرمیں ایسا جوش ابھرا کہ وہ اپنی جانیں راہ خدا پر نچھاور کرنے پرفوراً تیار ہوگئے اس تقریر کے ایک ایک لفظ سے طارق کے عزم، ہمت اور اور سرفروشی کے جذبات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے،
خطبہ کے چند جملوں کا اردو ترجمہ یہ ہے:
’’لوگو! تمہارے لیے بھاگنے کی جگہ ہی کہاں ہے؟ تمہارے پیچھے سمندر ہے، اور آگے دشمن، لہٰذا خدا کی قسم تمہارے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ تم خدا کے ساتھ کئے ہوئے عہد میں سچے اترو اور صبر سے کام لو، یادرکھو کہ اس جزیرے میں تم ان یتیموں سے زیادہ بے آسرا ہو جو کسی کنجوس کے دسترخوان پر بیٹھے ہوں، دشمن تمہارے مقابلے کے لیے اپنا پورا لائولشکر اوراسلحہ لے کر آیا ہے،اس کے پاس وافر مقدار میں غذائی سامان بھی ہے اورتمہارے لیے تمہاری تلواروں کے سوا کوئی پناہ گاہ نہیں، تمہارے پاس کوئی غذائی سامان اس کے سوا نہیں جو تم اپنے دشمن سے چھین کر حاصل کرسکو، اگر زیادہ وقت اس حالت میں گزرگیا کہ تم فقر وفاقہ کی حالت میں رہے اورکوئی نمایاں کامیابی حاصل نہ کرسکے توتمہاری ہوا اکھڑجائے گی، اور ابھی تک تمہارا جو رعب دلوں پر چھایا ہوا ہے،اس کے بدلے دشمن کے دل میں تمہارے خلاف جرأت وجسارت پیدا ہوجائے گی،لہٰذا اس برے انجام کو اپنے آپ سے دور کرنے کے لیے ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تم پوری ثابت قدمی سے اس سرکش بادشاہ کا مقابلہ کرو، جو اس کے محفوظ شہر نے تمہارے سامنے لاکر ڈال دیا ہے، اگر تم اپنے آپ کو موت کے لیے تیار کرلو تو اس نادر موقع سے فائدہ اٹھانا ممکن ہے۔ اور میں نے تمھیں کسی ایسے انجام سے نہیں ڈرایا جس سے میں خود بچا ہوں نہ میں تمھیں کسی ایسے کام پر آمادہ کررہا ہوں جس میں سب سے سستی پونجی انسان کی جان ہوتی ہے، اورجس کاآغازمیں خود اپنے آپ سے نہ کررہا ہوں یا درکھو ! اگر آج کی مشقت پر تم نے صبر کرلیا، تو طویل مدت تک لذت وراحت سے لطف اندوز ہوں گے۔اللہ تعالیٰ کی نصرت وحمایت تمہارے ساتھ ہے، تمہارا یہ عمل دنیا وآخرت دونوں میں تمہاری یادگار بنے گا اور یادرکھو جس بات کی دعوت میں تمھیں دے رہا ہوں اس پر پہلا لبیک کہنے والا میں خود ہوں، جب دونوں لشکر ٹکرائیں گے تو میرا عزم یہ ہے کہ میرا حملہ اس قوم کے سرکش ترین فرد راڈرک پر ہوگا اور انشاء اللہ میں اپنے ہاتھ سے اسے قتل کروں گا، تم میرے ساتھ حملہ کرو، اگر میں راڈرک کی ہلاکت کے بعد ہلاک ہوا تو راڈرک کے فرض سے تمھیں سبک دوش کرچکاہوں گا اور تم میں ایسے بہادر اور ذی عقل افراد کی کمی نہیں جن کو تم اپنی سربراہی سونپ سکو، اور اگر میں راڈرک تک پہنچنے سے پہلے ہی کام آگیا تومیرے اس عزم کی تکمل میں میری نیابت کرنا تمہارا فرض ہوگا، تم سب مل کر اس پر حملہ جاری رکھنا اورپورے جزیرے کی فتح کاغم کھانے کے بجائے اس ایک شخص کے قتل کی ذمہ داری قبول کرلینا تمہارے لیے کافی ہوگا کیوں کہ دشمن اس کے بعد ہمت ہار بیٹھے گا۔‘‘
طارق بن زیادہ کے سرفروش رفقاء پہلے ہی ولولۂ جنگ اور شوق شہادت سے مست تھے طارق کے اس خطاب نے ان کے دل ودماغوں میں نیا جوش وامنگ جگادی نتیجتاً ان کے جذبات میں وہ طوفان اٹھاکہ بحر ظلمات کی گہرائی اور جبل الطارق کی بلندی بھی ان کے لیے بے معنی لگ رہی تھی اسلامی لشکر اپنے جسم وجان کو بھلا کر مردانہ وار لشکر عظیم سے نبرد آزما ہوا یہ معرکہ متواتر آٹھ دن جاری رہا، وادی لکہ کی زمین شہیدان ِ اسلام کے خون سے سرخ ہوگئی مجاہدین ملت کے اس نثار سے مستقبل کی ایک نئی تاریخ مرتب ہونے جارہی تھی بالآخر پیغمبر اسلام ﷺ کی پیشین گوئی حقیقت میں بدل گئی
چناں چہ فتح ونصرت نے ان دلیر شجاع مسلمانوں کے قدم چومے، راڈرک کا لشکر بری طرح پسپا ہوا اور راڈرک بھی اسی جنگ میں مارا گیا بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے خود طارق بن زیاد نے قتل کیا اور بعض میں ہے کہ اس کا خالی گھوڑا دریاکے کنارے پایاگیا جس سے قیاس ہوتا ہے کہ وہ دریا میں ڈوب کر ہلاک ہوا، فتح لکہ کے بعد مسلمان اندلس کے دیگر شہروں پر بھی اپناقبضہ جماتے چلے گئے ان فتوحات نے واضح کردیا کہ یورپ کے وسیع سمندر اور بحری بیڑے مسلمانوں کے بلند حوصلوں اور جذبات کو نہیں روک سکتے اندلس کی فتح گوکہ یورپ کے داخلے کا سنگ ِ میل تھا۔
چناں چہ مسلمانوں کی پیش قدمی جاری رہی یہاں تک کہ وہ فرانس میں داخل ہوئے اور کوہ نیری نیز کے دامن تک اپنے پرچم لہرانے میں کامیاب رہے۔طارق بن زیاد کے نسب کی طرح ان کی زندگی کا اختتام بھی پراسراریت کے پردوں میں دبا ہوا ہے۔ مشہور یہ ہے کہ طارق موسی بن نصیر کے ساتھ دمشق لوٹ آئے تھے جس کا سبب دونوں کے درمیان اختلاف تھا۔ آخرکار خلیفہ الولید بن عبدالملک نے دونوں کو معزول کر دیا۔کہا جاتا ہے کہ زندگی کے آخری ایام طارق نے کسمپرسی میں گزارے بلکہ یہاں تک کہ انہیں مساجد کے باہر سوال کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر اسے اموی سلطنت کے اس عظیم سپہ سالار کے ساتھ بہت بڑی نا انصافی کہا جائے گا۔
اندلس کے اکثر بڑے شہروں آرکادینا، قرطبہ، ملاغہ، ایلودہرا، اور طلیطلہ کی فتح کے بعد قریب دودرجن حاکموں کے زیر اثر اندلس نے بے نظیر ترقی کی، ان حکمرانوں میں چند معروف نام یہ ہیں : طارق بن زیادہ شوال ۹۲ھ تا جمادی الاوّل ۹۳ھ، موسیٰ بن نصیر ۹۳ھ تا ۹۵ھ، عبدالعزیز بن موسیٰ ۹۵ھ تا ۹۷ھ، ایوب بن حبیب اللحمی ۹۷ھ تا ۹۸ھ، عبدالرحمن النقی ۹۸ھ تا ۱۰۰ھ، مسلمان دورِ اقتدار کے ساتھ جہاں ایک طرف عیسائی اپنی ریشہ دوانیوں میں مصروف رہے وہیں مسلم ارباب ِحکومت بھی اقتدار کی خاطر آپسی رسہ کشی کا شکار تھے خلیفہ منصور (۳۹۳ھ )کے انتقال کے بعد اندلس میں ایک انتشار کا دور شروع ہوگیا بربری امراء غلاموں اور خواجہ سرائوں نے سر اٹھانا شروع کردیا،
سلطان ہشام کو محل سے باہر لانا چاہا مگر وہ رضامند نہ ہوا ہشام آرام طلب اورکاہل بن گیا تھا، منصور کے بیٹے کو حاجب مقرر کیا اس نے ثابت قدمی سے سلطنت کو سنبھالے رکھا، اس کے بعد ۳۹۹ھ میں محمد ثانی مہدی کو تخت نشیں بنایاگیا غرض اہل قرطبہ کی اس سرکشی اور بدحیالی کااثریہ ہوا کہ گیارہویں صدی عیسوی کے نصف اوّل تک قریب تیس خود سر خاندان اتنے ہی شہروں یا اضلاع میں صاحب ِ اقتدار بن گئے جن میں اشبیلہ میں عبادیں ملاغہ والجسرہ میں جمود کا خاندان غرناطہ میں زہیر کا سرقسط میں بنی ہود کا طلیطلہ میں ذوالنونی کا اور بلنسہ مرسیہ والمربیہ کے حکمراں اور وں سے زیادہ سربرآوردہ تھے،
اس طوائف الملوکی کا اثر سرحدی عیسائیوں پربھی پڑا اور وہ بھی خود سر ہوگئے۔ (خلافت بنی امیہ:ص/۱۲۶-۱۲۷)نصاری الفانسو ششم نے اس بکھرائو کا فائدہ اٹھا یا اس نے الجوریا، لیون اورقشتالیہ کی سلطنتوں کو باہم ملاکر اپنے تحت کرلیا اور اپنے اقتدار کو آگے بڑھانے لگا تب اشبیلہ کے بادشاہ ’’معتمد‘‘ نے شمالی افریقہ کے بڑے بڑے حاکم کو امداد کے لیے طلب کیا یہ مردانی بادشاہ یوسف بن تاشقین تھا اس نے پہلے الجسرہ پر قبضہ کیاپھر زلافہ پہنچا اور ۴۷۹ھ کو الفانسو حکومت کا خاتمہ کردیا۔
یوسف بن تاشقین بانی خاندان المرابطہ حکمرانِ مراکش ۴۴۹ھ میں حسب وعدہ مراکش لوٹ گیا اور کچھ فوج یہاں حفاظت کے لیے چھوڑ گیا ۵۰۱ھ میں یوسف نے انتقال کیا اس کے بعد اس کا بیٹا علی جانشین ہوا غرض یہ سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں چلتا رہا۔ جب اندلس کے بڑے بڑے صوبے اور شہر عیسائیوں کے تسلط کا شکار ہوگئے اور صرف غرناطہ مسلمانوں کے پاس باقی رہ گیا تو اس وقت بھی مالقہ غرناطہ حکومت کے ماتحت تھا مگر آخری دور میں جب سلطان ابوالحسن غرناطہ کا تخت نشیں ہوا تواس نے اس اپنے اختیار میں آئی ہوئی مالقہ کی حکومت اپنے بھائی الزغل کے حوالے کردی اور اسے ایک خود مختار ریاست قرار دے دیا دونوں بھائیوں نے مل کر عیسائی کے سیلاب کو روکے رکھا اور ان کے خلاف متعدد بار کامیابی بھی حاصل کیں۔
ممکن تھا کہ پھر سے پورا اندلس عیسائی حکومت سے آزاد ہوجاتا مگر اسی دوران ابوالحسن کے بیٹے ابوعبداللہ نے محلاتی سازشوں کے ذریعہ اپنے باپ کے خلاف بغاوت کرکے اسے بے دخل کردیا۔ اور غرناطہ پر قبضہ کرلیا ابوالحسن نے جان کی امان کے لیے اپنے بھائی الزغل کے پاس آگیا اس واقعہ سے غرناطہ اور مالقہ کے درمیان آپسی تعلقات کا خاتمہ کردیا، جس کا فائدہ عیسائیوں نے اٹھایا، ابوالحسن اور الزغل دونوں بھائی ۸۸۸ھ سے ۸۹۱ھ تک عیسائیوں سے لڑتے رہے بالآخر ۸۹۱ھ میں دونوں بھائی نصاریٰ سے جنگ کرتے ہوئے شہید ہوگئے
یہ شہادتیں گوکہ اندلس میں مسلم حکومت وسطوت کا خاتمہ تھا، قشتالہ کے عیسائی حاکم فرڈی ننڈ او رملکہ ازبیلا نے اس شہر پر قبضہ کرلیا مالقہ پر تسلط کے بعد غرناطہ میں ابوعبداللہ کی سرکار بھی سات سال سے زائد نہ ٹک سکی اور ۸۹۸ھ میں ابوعبداللہ نے غرناطہ بھی فرڈی ننڈ اور ازبیلا کے حوالہ کردیا اندلس میں مسلمان ۹۲ھ-۷۲۱ء میں جس شان وتزک سے داخل ہوئے اسی لاچاری اور بے کسی سے ان کو یہاں سے نکال دیاگیا اس آٹھ سو سالہ دورِ حکومت کی بے دخلی کی متعدد وجوہات ہیں جن میں نفاق سب پر بھاری ہے اسی لیے قرآن وحدیث نے سب سے زیادہ زور مسلمانوں کے اتحاد پر دیا،
دوسرے ان میں عیش پرستی اور بے عملی بھی عود کر آگئی تھی جس نے ان کے دلوں پر مہر بے حسی لگادی تھی، مسلمانوں کے ان آٹھ سو سالہ دورِ اقتدار میں انھوں نے اس سرزمین پر علم ودانش اور تہذیب وتمدن کے وہ چراغ روشن کئے کہ جس کی روشنی سے اب تک یورپ مستفید ہورہاہے او رپوری دنیا میں اس خطہ کو سب سے زیادہ ترقی یافتہ بنایا تھا اسپین کے المناک اور عبرت ناک مختصر حالات کے بعد ہم یہاں کی علمی ادبی، سائنسی تہذیبی اور تصنیفی خدمت پر ایک اجمالی نظر ڈالیں گے۔
